حدیث شریف میں ہے کہ ہر بچہ فطرت (توحید اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر ماحول اس پر اثر انداز ہونا شروع ہوتا ہے اور اس گھر کا ماحول اسے یہودی، عیسائی، مجوسی، سکھ، ہندو بنا دیتا ہے۔ کیونکہ ماں کی گود بچے کی اصلاح کا پہلا مدرسہ ہے اس لیے والدین کے اخلاق کا بچے کی تربیت پر اثر پڑتا ہے۔ بچہ اپنی متجسس فطرت کے باعث اس کا بغور مطالعہ کرتا رہتا ہے اور چونکہ اسے اپنے والدین پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اس لیے جو بھی آپ کریں گے وہی کچھ کرنے کا خیال اس کے دل میں پختہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس کی حالت ایک شفاف سفید کپڑے یا کاغذ کی مانند ہوتی ہے جس پر جو رنگ بھی آپ چڑھائیں گے۔ چڑھ جائے گا۔ لہٰذا یہی وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے بچے کی صحیح اخلاقی اور جسمانی تندرستی کی تعمیر اور تربیت کے لیے کچھ کر سکتے ہیں اور ظاہر ہے اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تنقیدی نظروں سے دیکھ کر جائزہ لینا ہوگا کہ کیا....؟
1۔ ہمارے گھر کا ماحول عین دین فطرت کے مطابق ہے؟
2۔ خوراک میں اعتدال کے پہلو کو سامنے رکھتے ہیں؟
3۔ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، اخلاق و کردار، لین دین، قول و فعل درست ہیں؟
مندرجہ بالا باتوں کی حیثیت بالکل وہی ہے جیسے ایک کسان اپنی کھیتی کو بچانے کے لیے چاروں طرف کانٹوں کی باڑھ لگا لیتا ہے اور پھر وہ صرف باڑھ کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی طرح نومولود بچہ بھی بڑی حفاظت کا محتاج ہے تاکہ پاکیزہ فطرت پر پیدا ہونے والے بچے کی صحیح طور پر نگہداشت ہو سکے اور وہ گندے ماحول سے بچا رہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاﺅ۔“ اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرما دیا وہ ہمارے لیے فرض بھی قرار پایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں ہم اپنی مغفرت اور بخشش کی فکر میں لگے رہتے ہیں وہاں اپنی اولاد (بچوں) کی بھی فکر کریں۔ حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ”جاننا چاہیے کہ اولاد ماں باپ کے ہاتھ میں اللہ کی امانت ہے۔“ بچے کا دل نفیس گوہر کی طرح پاک ہے۔ اس میں موسم کی طرح نقش بن سکتے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے وقت ان نقشوں سے خالی ہوتا ہے اور پاک زمین کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں (نیکی، بدی) کا جو بھی بیج ڈالو گے، وہی اُگے گا۔ اگر بھلائی کا بیج ڈالو گے تو وہ دین کی سعادت پائے گا۔ اس کے ثواب میں ماں باپ کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے برعکس اس میں برائی کا بیج ڈالا تو وہ بدبخت ہوگا اور اچھائی برائی جو بھی وہ کرے گا اس میں والدین کو بھی حصے ملے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اسے باادب رکھیں، اس کے اخلاق اچھے بنائیں، اسے برے دوستوں کی صحبت سے دور رکھیں۔ لہٰذا بتدا ہی سے یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دودھ پلانے والی ماں یا دوسری عورت صالح اور نیک خصلت ہو، حلال کھانے والی ہو۔ کیونکہ دودھ پلانے والی کی بری خصلت بچے پر اثر کرتی ہے اور حرام کھانے سے جو دودھ پیدا ہوگا وہ حرام ہوگا اور جب بچے کا گوشت اس دودھ سے بنے گا تو بچے کی طبیعت میں اس کی مناسبت پیدا ہوگی اور بچہ بڑا ہو کر آپ اور معاشرے کے لئے ناسور کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔
باپ کو چاہیے کہ رزق حلال کمائے اور اپنی حشمت کے مطابق بچوں پر نگاہ رکھے۔ ہر روز کھیلنے کے لیے ایک وقت دیں تاکہ وہ خوش رہیں اور تنگ دل نہ ہو جائیں۔ دوسرے لڑکوں یا لڑکیوں سے مانگنے کی بجائے اس میں دوسروں کو دینے کی عادت ڈالیں کیونکہ دینے والا ہاتھ غنی کا اور لینے والا بھکاری کا ہوتا ہے اور یہ بھی سمجھائیں کہ زیادہ نہ بولیں اور قسم ہرگز نہ اٹھائیں۔ جب تک ان سے کوئی نہ پوچھے تب تک بات نہ کریں اور جو ان سے بڑا ہو اس کی عزت کریں اور چھوٹوں سے پیار کریں۔ ان کے سامنے چوری، حرام خوری اور جھوٹ بولنے کی برائیاں بیان کریں اور اسلاف کی بہادری اور نیک نامی کے واقعات بیان کریں تاکہ بچے صحیح زندگی گذارنے کی طرف راغب ہو جائیں۔ اس طرح پرورش کرنے سے جب بیٹی یا بیٹا بالغ ہو جائے تو اسے سمجھائیں کہ کھانے پینے کا مقصد کیا ہے۔ کیسے کھائیں، کتنا کھائیں، صحت کو برقرار رکھنے کے لئے کون کون سی غذا کی دن میں کتنی بار ضرورت پڑتی ہے، زیادہ کھانے سے لاحق ہونے والے امراض سے آگاہ کریں۔ صبح نماز کے بعد ورزش کا عادی بنائیں تاکہ وہ جسمانی بیماریوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ یاد رکھیے! جب آپ ابتدا ہی سے ادب کے ساتھ بچے کی تربیت کریں گے تو یہ باتیں اس کے دل میں پتھر کی طرح نقش ہو جائیں گی اور اگر ابتدا ہی میں اس پر توجہ نہ دی گئی اور اس کی تربیت پر دھیان نہ دیا گیا پھر کوئی بات اس پر اپنا نقش نہ چھوڑ سکے گی۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 976
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں